تھی۔1985کے بعد سے بننے والے نظام میں وزیراعظم کو اگر وزیراعلیٰ پنجاب کی بھرپور حمایت نہ حاصل ہو تو وزیراعظم کا حال مغل بادشاہ شاہ عالم جیسا ہو جاتا ہے، جس کے عہدِ اقتدار کا مشہور قول ہے کہ ’’سلطنت شاہ عالم، ازدلی تا پالم‘‘ سینیٹ الیکشن میں حکومتی سائیڈ کے ہار جانے کی وجہ جہاں ایم این ایز کی ناراضی تھی وہاں ایک اہم شخصیت کا مڈل ایسٹ کا دورہ بھی تھا، وہ
شخصیت موجود ہوتی تو شاید حکومت کو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا اور اس شکست کی تیسری اہم وجہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کا بےاثر ہونا ہے۔یاد کیجئے جونیجو کے زمانے میں نواز شریف، محترمہ کے زمانے میں وٹو اور نکئی اور پرویز مشرف کے زمانے میں پرویز الٰہی اس قدر طاقتور ہوتے تھے کہ انہیں ایک ایک ایم این اے کے دل کا حال تک معلوم ہوتا تھا۔اس بار لگتا ہے کہ پنجاب حکومت وہ کنٹرول کھو بیٹھی تھی، پنجاب حکومت نے اس بار شاید ایم این ایز کو ہینڈل ہی نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی سائیڈ کو سینیٹ میں شکست ہوئی ہے، پنجاب کا بھرپور ساتھ ہوتا تو ایسا ممکن ہی نہیں تھا۔شاید یہی وہ پس منظر ہے جس کی وجہ سے پنجاب میں تبدیلی کی افواہیں پھر سے گردش میں ہیں، پہلے کہا گیا کہ راجہ بشارت کے نام پر اتفاق ہو گیا پھر اطلاع آئی کہ نہیں علیم خان اور راجہ بشارت دونوں کے نام زیر بحث ہیں، پھر یہ خبر آ گئی کہ ایک ادارے نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ شاہ محمود قریشی یاچودھری فواد کو یہ
عہدہ دیا جائے تو وہ اسے بخوبی چلا سکتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ پنجاب کے اراکینِ اسمبلی میں سے اسلم اقبال، راجہ یاسر ہمایوں اور مراد راس کے نام بھی زیر غور آ چکے ہیں۔میری ذاتی رائے میں جب تک متبادل نام فائنل نہیں ہوتا اس وقت تک سردار عثمان بزدار کا ہی طوطی بولتا رہے گا۔ اس وقت پنجاب میں تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہی متبادل ڈھونڈنا ہے۔ فائنل چوائس عمران کے پاس ہے انہیں فی الحال بزدار ہی پسند ہے تاہم ان پر دبائو ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں، دیکھیں وہ خود یہ فیصلہ کرتے ہیں یا نہیں، یہ وقت گزر گیا تو پھر حالات ان پر اپنا فیصلہ تھوپیں گے اور ہو سکتا ہے کہ وزیراعلیٰ ان کی مرضی کا بھی نہ ہو اور انہیں اسے تسلیم بھی کرنا پڑ جائے۔دوسری طرف بلاول بھٹو اپوزیشن کے پنجاب بارے متبادل پلان کے ساتھ لاہور میں موجود ہیں، ان کا پلان یہ ہے کہ ن لیگ، پیپلز پارٹی
اور ق لیگ مل کر پنجاب حکومت بدل دیں۔اس کے لئے وہ چاہتے ہیں کہ ن لیگ پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر قبول کرلے اور دوسری طرف چودھری اپنا اتحاد تحریک انصاف سے توڑ کر پی ڈی ایم کے ساتھ کر لیں۔ بظاہر اس سیاسی پلان کی کامیابی کا فوری امکان نہیں لیکن فرض کریں کہ اگر پی ٹی آئی حکومت نے عثمان بزدار کی بجائے کسی اور کو چیف منسٹر بنانے کی کوشش کی، چاہے وہ چودھریوں کے سابق اتحادی راجہ بشارت ہی کیوں نہ ہوئے۔